یورپ آنے والے تارکینِ وطن کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیشِ نظر جرمنی نے آسٹریا کے ساتھ اپنی سرحد کی نگرانی سخت کرنے اور غیر قانونی تارکینِ وطن کا داخلہ محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جرمن وزیرِ داخلہ تھامس ڈی میزئر نے اتوار کو صحافیوں کوبتایا کہ اقدام کا مقصد پناہ گزینوں اور غیر قانونی تارکینِ وطن کے سیلاب کو روکنا اور سرحد پر آمد و رفت کو معمول پر لانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال صرف آسٹریا کے ساتھ سرحد کی نگرانی سخت کی جارہی ہے جس کے تحت سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد ہی لوگوں کو سرحد پار کرنے کی اجازت ہوگی۔
جرمن وزیرِ داخلہ نے کہا کہ بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکینِ وطن کی آمد کے باعث پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات کے ازالے کے لیے یہ اقدام ضروری تھا۔
مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کے بحران زدہ علاقوں سے فرار ہو کر یورپ پہنچنے والے تارکینِ وطن کی آمد میں اچانک اضافے کے بعد گزشتہ ہفتے جرمن چانسلر اینگلا مرخیل نے یورپی یونین کے پناہ گزینوں سے متعلق قوانین عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا تھا۔
یورپی یونین کے قوانین کے تحت غیر قانونی تارکینِ وطن صرف اسی ملک میں پناہ کی درخواست دینے کے اہل ہیں جہاں وہ سب سے پہلے پہنچیں۔
ان قوانین کی معطلی کے بعد ہزاروں پناہ گزینوں نے ہنگری اور آسٹریا کے راستے جرمنی کا رخ کیا تھا ۔ جرمن پولیس کے مطابق صرف ہفتے کو 12 ہزار سے زائد جب کہ اتوار کی صبح مزید تین ہزار غیر قانونی تارکینِ وطن آسٹریا کی سرحد پار کرکے جرمنی کے جنوبی شہر میونخ پہنچے جس سے بحران کی سنگینی کا اندازہ ہوتا
ہے۔
مزید پناہ گزینوں کو جرمنی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اتوار کو آسٹریا اور جرمنی کے درمیان چلنے والی ٹرین سروس بھی معطل کردی گئی ہے۔
اتوار کو دارالحکومت برلن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جرمن وزیرِ داخلہ ڈی میزئر نے تارکینِ وطن سے متعلق یورپی قوانین کو معطل کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتےہوئے کہا کہ فیصلہ بحران کی سنگینی کے پیشِ نظر عارضی طور پر کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی تنہا تمام تارکینِ وطن کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور یورپ کے دیگر ملکوں کو بھی اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔
یورپی یونین کے 28 رکن ملکوں کے وزرائے داخلہ پیر کو یورپی کمیشن کی جانب سے پیش کیے جانے والے ایک منصوبے پر غور کریں گے جس میں رکن ملکوں میں ایک لاکھ 60 ہزار تارکین وطن کی کوٹے کی بنیاد پر آباد کاری کی تجویز دی گئی ہے۔
وسطی یورپی ممالک منصوبے کی سخت مخالفت کررہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ کمیشن کی جانب سے تارکینِ وطن کی آباد کاری کا کوٹہ مسلط کرناناقابلِ قبول ہے۔
رواں سال اب تک چار لاکھ 30 ہزار سے زائد غیر قانونی تارکینِ وطن پناہ کی تلاش میں بحیرہ احمر عبور کرکے یورپ پہنچ چکےہیں۔
ان پناہ گزینوں کی اکثریت کا تعلق خانہ جنگی کا شکار ملکوں خصوصاً شام، عراق اور لیبیا سے ہے۔ خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ٔ احمر عبور کرنے کی کوشش کے دوران رواں سال ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی تین ہزار کے لگ بھگ ہے جس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
اتوار کو بھی یونان کے ساحل کے نزدیک پناہ گزینوں سے لدی ایک کشتی ڈوب گئی جس کےنتیجے میں اب تک 28 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔